gov-pak
gov-pak

Mukarram Hussain Awan

Position: ( 1999-2000 )
Categories: Alumni Members

انسان کو دنیا متعارف کروانے والے والدین سب سے پہلا تحفہ نام کی شکل میں عطا کرتے ہیں۔ کسی بھی انسان کا نام اس شخص کا نام رکھنے والے شخص کی شعوری شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔ والدِ محترم نے مکرم حسین اعوان نام سے نوازا۔ جیسا حَسِین نام عطا کیا ویسی ہی حسین تعلیم و تربیت کے لیے فیڈرل کالج آف ایجوکیشن، اسلام آباد میں بھیج دیا۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو انسان سازی کرنے کے ساتھ ساتھ انسان ساز انسان بھی بناتا ہے۔ مختصر یوں کہہ لیں کہ یہ ادارہ “ہیومن انجینئرنگ” کی تعلیم دیتا ہے۔ اس ادارہ میں گزارے ہوئے لمحے یادِ ماضی کا وہ نقش ہے جو کسی سنگلاخ چٹان پر تیثہ کی ضربات دے کر ابھارا جاتا ہے۔ ایسا نقش ہے جو کو مٹانا حوادث کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس ادارہ میں آغوش مادر کی گرمی کے لیے رعنا سرفراز عالم جیسی ممتا میسر رہی ہیں۔ پدرانہ شفقت کے لیے زاہد حسین جیسے بزرگ رہے ہیں۔ صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لیے ایف ایم نسیم جیسی شخصیت کا ہمہ وقت رعب و دبدبہ اذہان کی عمیق گہرائی میں ضرب لگاتا رہا ہے۔ میڈم سعیدہ جبیں کے لیے جبیں ہمیشہ احترامی سجدہ ریز رہتی ہے۔ انہوں نے اردو کے لیے بنیاد فراہم کی اور میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کر لیا۔ سر روح الامین شاملِ دعا رہتے ہیں کہ ان کی تربیت کی بدولت میں انگریزی زبان کا خصوصی امتحان پاس کر کے اقوام متحدہ میں ایک سال پاکستان کی نمائندگی کرنے کے قابل ہوا۔  اقبال کے شاہینوں کو پورا سال فلسفہ کے نام سے ڈرانے والی ہر دل عزیز میڈم رفعت شاہین کو بھولنے والے کو اللہ تعالیٰ ان کا لیکچر سننے کے اسباب پیدا فرمائے۔ الہی آمین۔ برسبیلِ تذکرہ یاد آیا کہ اس ادارہ میں ہمیں دوران تعلیم ریڈیو سننے کی سہولت بھی میسر تھی۔ خود کار مانیٹرنگ کے لیے ماجد عمر جیسا سی سی ٹی وی کیمرہ ہر گوشہ و کوچہ میں نصب تھا۔ جس کے قدم پر قدم رکھتے ہوئے لاہور پولیس نے فوری ای چالان کا نظام وضع کیا ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ پاکسان کے خفیہ ادارے جاسوسی کے بارے خصوصی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے ابنِ صفی اور موصوف کی خدمات حاصل کرتے رہے ہیں۔ معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے جمیل احمد جیسے خدائی ثالث موجود تھے۔ کچھ اساتذہ نے گوناں گوں وجوہات کی بنیاد پر شریک حیات کے انتخاب میں خاصی تاخیر کا مظاہرہ کیا۔ ان کے نام لینا حدِ ادب سے تجاوز ہو گا۔ تاہم گوناں گوں کی تفسیر اس شعر میں پنہاں ہے کہ

بڑا عجیب محبت کا یہ فسانہ ہے

دل ہے تیرا، تو کسی اور کا دیوانہ ہے

میرے جیسوں کو اگر کوئی محبوب میسر نہ ہوتا تو محبوب ڈرائیور اور محبوب چوکیدار جیسے محبوب بھی دل جوئی کے لیے چشم براہ تھے۔ گھر کے کھانے کی یاد دلانے کے لیے رفیق خانساماں اپنے جوہر دکھاتے رہتے تھے۔ ‘گھر کے کھانے کی یاد’ کو سمجھنے کے لیے آپ کو میرے سرہانے پڑی ہوئی ردِ تیزابیت کی ادویہ کو دیکھنا ہو گا۔ پیامبرِ خواص بین القیام گاہ مرد و نسواں کے عہدہ پر  براجمان چاچو “سرکار” کو بھول جانا گناہِ خاص میں شمار ہو گا۔ جس کا عذاب قبر سے پہلے شروع ہونے کا یقین ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو محفوظ ترین پیغام رسانی کا پہلا وٹس ایپ ہونے کا اعزاز چاچو سرکار کو حاصل رہا ہے۔

انسان ساز بنانے والے ادارے سے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے ہی پنجاب پولیس میں بطور اسسٹنٹ سب انسپکٹر انتخاب ہو گیا۔ ایم اے اردو اور سیاسیات اس لیے کر لیا کہ کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر لگا۔ پنجاب پولیس کے کمانڈو یونٹ ایلیٹ پولیس فورس کی خصوصی تربیت حاصل کی تو قدرت نے اقوام متحدہ امن مشن برائے دارفر، سوڈان میں کام کرنے کا موقع دیا۔ ایک سال تک ‘صحرائے سہارا’ میں مقیم رہا۔ دشت میں قیام نے شعر و سخن کی دبی ہوئی چنگاڑی کو ہوا دی۔ آٹھ سال تک ایلیٹ پولیس فورس گوجرانوالہ کی کمان کی۔ ان دنوں گوجرانوالہ میں بطور موٹر ٹرانسپورٹ آفیسر ضلع پولیس کی گاڑیوں کا انتظام و انصرام سنبھالے ہوئے ہوں۔ شاید ہی کوئی مہینہ گزرتا ہو گا کہ کالج کی گزاری ہوئی زندگی خواب میں نہ دیکھوں۔ رب العزت تمام اس ادارہ کو اسی تابناکی کے ساتھ قائم و دائم رکھے۔ الہی آمین

مکرم حسین اعوان
03006420390